فلسفہ قربانی – سارہ ظفر

عید الاضحٰی ہمیں بہت سی قربانیوں کی یاد دلاتی ہے اور اس قربانی کا مفہوم ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام ) کی زندگی سے روشناس ہوئے بغیر جان ہی نہیں سکتے ۔ حضرت ابراہیم( علیہ السلام ) ، جنھیں جس مٹی سے گوندھا گیا اس میں بھی قربانی کا جز موجود تھا ۔انھوں نے زندگی میں قدم قدم پہ قربانی دی ۔جہاں محبت کا دعوٰی کیا جاتا ہے وہاں اس محبت کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی قربانیاں دی جاتیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ نے قرآن میں بار بار حضرت ابراہیم(علیہ السلام ) کا ذکر کیا، محبت سے کئی ناموں سے پکارا۔ ان کی قربانیوں کو اس قدر پسند کیا کہ رہتی دنیا کے لئے ان کی قربانی کو فرض کردیا ۔  تمام مذاہب انھیں اپنا “جدِّامجد ” مانتے ہیں ۔کیونکہ وہ رب بہت قدردان ہے ، اسکے لئے جب قربانی دی جاتی ہے تو وہ یاد رکھتا ہے اسے خلیل اللہ کا لقب دیتا ہے، اسکے قلب کو “قلبِ سلیم ” کہتا ہے۔

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

میں اکثر سوچتی ہوں وہ کیا چیز ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام ) کو بھڑکتی آگ میں بھی لے گئی ۔ شاعر نے اس شعر میں بیان کیا ہے کہ ان کی محبت  اللہ کے لیے اس قدر شدید تھی کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر آگ میں کود پڑے۔ عقل سے نہیں پوچھا کیا،کیوں اور کیسے؟  ورنہ شاید عقل روک لیتی مگر عشق اپنا کام کر گیا اور عقل دنگ رہ گئی ۔

حضرت ابراہیم( علیہ السلام ) کی قربانی کا سلسلہ بچپن سے ہی شروع ہوگیا تھا جب انھوں نے غوروفکر کر کے اللہ کو پہچانا اور اپنا آپ اللہ کے حوالے کردیا۔ سب سے پہلے باپ کی قربانی دی گئی ، اسلام کا نام سن کے باپ ہی سب سے بڑا دشمن بن گیا۔ اپنی جان کی قربانی دی گئی ، بتوں سے صاف بیزاری کا اعلان کردیا ،

وقت کے ظالم بادشاہ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور اسے للکارا کہ میرا رب سورج مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا۔نمرود نے طیش میں آکے ایک گڑھا کھدوایا اور اس میں آگ بھڑکادی ۔ آنکھیں دیکھتی رہیں مگر محبت کا دعوٰی کرنے والا کب رُکتا ہے ، وہ تو بس کود  پڑتا ہے ۔ حکم دیا گیا

” يَـٰنَارُ كُونِى بَرْدًا وَسَلَـٰمًا عَلَىٰٓ إِبْرَٰهِيمَ”

(اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا)

اور آگ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم( علیہ السلام)کے لئے گُل و گلزار ہوگئی اور صدا ہوتی ہے کہ وفا کا حق ادا کردیا گیا۔

آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا

ایک اور امتحان کا آغاز ہوا، بیوی اور شیرخوار بیٹا ہے حکمِ ربّی کے تحت صحرا میں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ویران جگہ، شیرخوار بچہ، چند کھجوریں اور تنہا  بیوی مگر محبت کا دعوٰی کرنے والے کیا کیوں کیسے کب سوچتے ہیں، وہ تو بس عمل کرتے ہیں اور بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ اس اللہ کے حوالے کر کے جانے لگتے ہیں تو بس بیوی ایک سوال پوچھتی ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے ؟ اور پھر خاموش ہو جاتی۔

اور صدا ہوتی  ہے کہ وفا کا حق ادا کردیا گیا ۔وقت گزر رہا ہے اور

بچہ بھوک سے بلک رہا ہے، بیچین ماں صفا و مروہ پہاڑی کے چکر کاٹ رہی ہے کہ کہیں کوئی قافلہ نظر آجائے ، سات چکر     کاٹے جاتے ہیں      

قربانی قبول ہوجاتی ہے اور چشمہ پھوٹ نکلتا ہے۔ ویران بنجر زمین آباد ہوجاتی ہے،اتنا پانی نکلتاہےکہ”زم زم ” کی آواز دی جاتی ہے ۔

اب وہ بچہ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ جاتا ہے اور باپ کو اس سے اُنسیت ہوجاتی ہے۔ خواب میں اشارہ دیا جاتا ہے کہ ذبح کردو۔ ایک اور امتحان، ایک اور قربانی۔ تاریخ میں ایک نئی مثال قائم کی جاتی ہے ۔

باپ بیٹے کو خواب کے بارے میں آگاہ کرتا ہےاور بیٹا بھی اس قدر فرمانبردار کہ اللہ کے حکم کے آگے سرِتسلیم خم کردیتا ہے

آنکھ پہ پٹِّی باندھی گئی،  کہیں بیٹے کی محبت بیچ میں نا آجائے یا وہ دھوکے باز دشمن کوئی چال نہ چل لے۔ آنکھیں پھٹی رہ گئیں ، وقت تھم گیا ، عقل و دل دنگ رہ گئے مگر محبت کا دعوٰی کرنے والے کب سوچتے ہیں کیا کیوں اور کیسے ؟ وہ تو بس چُھری پھیر دیتے ہیں۔ اور صدا ہوئی کہ وفا کا حق ادا کردیاگیا اور قربانی قبول کی گئی اور اللہ کے حکم سے مینڈھا آگیا اور اسی سنت کی یاد میں آج دنیا بھر میں مسلمان جانوروں کو قربان کرتے ہیں ۔

۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام ) نے اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام ) کو قربان کیا تھا، مینڈھا تو چھری پھیرنے کے بعد آیا تھا ۔ کیونکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام ) ان کے لختِ جگر ان کے دل کے قریب ہوتے جارہے تھے اور اللہ تعالٰی جو دلوں کے حال سے واقف ہے ،انھوں نے آزمایا کہ کہیں یہ محبت میری محبت کے مقابلے میں تو نہیں آگئی ۔آج ہم بڑی آسانی سے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں مگر کیا واقعی یہی سنتِ ابراہیمی ہے ؟

کیا واقعی ہم اپنے اسماعیل قربان کرتے ہیں؟ وہ چیز جس کی محبت اللہ کی محبت کے مقابلے میں آرہی ہوکیا ہم اسے قربان کرتے ہیں ؟

یا پھر جانوروں کو قربان کر کے  ہم اپنی گردنیں اسلیے آزاد چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ غیر کے آگے جھک جائیں ؟

اللہ تعالٰی نے صاف قرآن میں فرمایا ہے

“الله کو نہ ان کا گوشت اور نہ ان کا خون پہنچتا ہے البتہ تمہاری پرہیز گاری اس کے ہاں پہنچتی ہے اسی طرح انہیں تمہارے تابع کر دیا تاکہ تم الله کی بزرگی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور نیکوں کو خوشخبری سنا دو”

جانور بڑا ہو یا چھوٹا ، موٹا ہو یا پتلا ، اللہ سبحان و تعالٰی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔وہ تو پرہیزگاری دیکھتا ہے۔ ہمیں اپنی نیتوں کو خالص کر کے جانور اللہ کی رضا کے لئے قربان کرنےچاہیئے، ہر دکھاوے سے

، ہر باربیکیواور دعوتی ارادوں سے بالکل پاک کرکے،صرف اور

صرف اللہ کی رضا کے لئے قربان کرنے چاہیے۔

اور اگر ہم واقعی اللہ سے محبت کا دعوٰی کرتے ہیں تو پھر کیا کیوں کیسے پہ ہی کیوں رُک جاتے ہیں؟اگر یہ پیسے بھی صدقہ کردیئے تو کھاؤں گا کیسے؟

میں تو ڈاکٹر بننے جارہی میرے پاس وقت ہی کب ہوتاہے؟ بتاؤ میں قرآن کب پڑھوں ؟ یہ کیا، کیوں اور کیسے سے آگے نکل کرہی تو قربانی دی جاتی ہے۔ اور اللہ کی راہ میں دی جانے والی ہر قربانی کو پھر وہ یاد رکھتا ، ذکر بار بار کرتا ہے اور اسکا نام تمام انسانوں میں زندہ رکھتا ہے ۔ اور فرماتا ہے وہ ابراہیم (علیہ السلام)جس نے وفا کا حق ادا کردیا۔

نام :سارہ ظفر
سال : دوم
ڈیپارٹمنٹ: ایم بی بی ایس

About Writer

Picture of JSMU Faith Society
JSMU Faith Society

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Tags:

Subscribe to our Newsletter

Trust us we don't spam