کیا آپ نے کبھی کوئی ایسا انسان دیکھا ھے جس نے کبھی کسی چیز کی قربانی ہی نہ دی ہو،کبھی اپنی پسندیدہ محبوب چیز کو نہ کھویا ہو، کبھی اپنی چاہ سے دستبردار نہ ہوا ہو. نہیں! ایسا کوئی نہیں ہوتا. ہم سب زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر قربانی دیتے ہیں، اپنے جذبوں کو دبا کر قربانی دیتے ہیں، اپنے مقصد کے لئے قربانی دیتے ہیں، کبھی دنیا کو حاصل کر نے کے لئے اپنے رشتوں کی قربانی دیتے ہیں. غرض بندہء بشر قربانی کے جذبے سے نا آشنا نہیں ہے. زندگی نے کسی نہ کسی دور میں ہمیں اس جذبے سے روشناس کرایا ہے.
سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ہم نے ﷲ کی راہ میں یا اللہ کے لیے یا اللہ کی ماننے کے لیے قربانی دی؟
جب ھم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہانی پڑھتے ہیں تو اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جذبہء قربانی، اپنے محبوب بیٹے کی محبت کو الگ کر کے، اپنے رب کے لیے بیٹا قربان کر نا، ہم اکثر پڑھتے ہیں. ہم اس پر بات کرتے ہیں جو اس واقعہ کا ایک اہم پہلو ہے لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اپنے آپ کو قربان کرنے کا جذبہ ھماری آنکھوں میں دھندلا جا تا ہے وہ صرف سات برس کے ایک بچے تھے. اور جب ان کے ابا نے ان سے انہی کی قربانی کے بارے میں مشورہ مانگا تو کہتے ہیں :
” یا ابت فعل ما تومر”
اے میرے باپ جو کچھ حکم کیا جاتا ہے کر دیجئے.
نہ چوں نہ چراں، سات سال کا بچہ یہ نہیں بول رہا کہ ابو! کیا ہوگیا ہے مجھے ذبح کرینگے، یہ تو عقلاً شرعاً ہر طرح سے عجیب ہے. اس بیٹے کی ایسی تربیت تھی کہ جیسے خون میں دوڑ رہی ہو یہ بات کہ” اللہ کا حکم جو بھی ہو کر دیجئے. وہ ہمارا رب ہے ہمیں مکمل بھروسہ ہے اس پر” . صرف یہ ہی نہیں، کہ رہے ہیں کہ میرا چہرا الٹی طرف رکھیے کہیں میرا چہرا دیکھ کر میری محبت غالب نہ آجائے. یہ صرف والد کی اطاعت نہیں تھی بلکہ اپنے رب کی محبت اور اس پر توکل کی ایک بڑی عجیب کیفیت تھی. جو کسی بیس یا پچیس سالہ جوان کے اندر نہیں بلکہ صرف ایک سات سال کے بچے کے اندر تھی.
آج میرا، ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ھم اس جذبے سے خالی ہیں. اللہ کے لیے اپنی “میں”، اپنی پسند کو ہٹانا یہ آج ھم سے نہیں ہو تا. اللہ کا چھوٹا سا کوئی حکم ماننا ہو یا بڑا سا ہمیں بہت مشکل لگتا ہے کیونکہ ہمارے اندر یہ احساس یا تو بہت کم ہے یا ہے ہی نہیں کہ ہمیں اللہ کی ماننے کے لیے اپنی بہت سی آساءشات، خواہشات اور بہت سے مزوں کو قربان کر نا پڑےگا
ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں، اپنے اپنے دائرہ میں، کسی نہ کسی گناہ کے خلاف لڑرہا ہوتا ہے. کبھی ھم جیتتے ہیں کبھی نہیں. اگر ھم اپنا اپنا محاسبہ کریں تو ھمارے اندر اللہ کے لیے، اپنے غلط جذبات قربان کرنے کا جذبہ بہت کم ہے.
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کے اندر اللہ کی محبت جتنی ہے تو وہ اسی قدر قربانی دیتا ہے. اسی قدر گناہ سے لڑ پاتا ہے، کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر بات مانی جاتی ہے، اس کو ناراض کر نے سے ڈر لگتا ہے، اس کی ہاں ہاں ہوتی ہے اور ناں ناں. جب ہم اللہ کو جا نیں گے ہی نہیں تو اس سے محبت کیسے کریںگے، اور جب اس کی محبت دل میں نہیں ہوگی تو اس کی ماننے کے لییے قربانی کا جذبہ کہاں سے لائیں گے؟ عید الاضحی پر جانور کی قربانی دراصل ایک اشارہ ہے. قربانی کا اصل فلسفہ یہی ہے کہ وہ جذبات جو اللہ کی ماننے میں رکاوٹ ہیں ہم اس پر چھری چلاءین اور جس اطاعت کے جذبے کو بڑھانے کی ضرورت ہے اس کی نشوونما کریں. اور اللہ سے زیادہ ضروری، اللہ کی محبت سے زیادہ محبت ہماری زندگی میں کسی کی نہ ہو کیونکہ چاہے ھمارے پیروں تلے زمین نکل جائے یا سر سے آسمان سرک جائے چاہے جسم کا روح سے تعلق تک ٹوٹ جائے، کوئی موت، کوئی حالات، کوئی انسان ہمیں ہمارے رب سے جدا نہیں کرسکتے.
سیدہ رومیصہ جاوید
سندھ میڈیکل کالج
ایم-بی-بی-ایس
فرسٹ ایئر