اسماعیلی فرقے کی تاریخ، عقائد، اور جدید دنیا میں ان کا کردار

اسماعیلی Ismaili History From Fatimid to Aga Khan GridxMatrix

ابتدائی پس منظر :

اسماعیلی فرقہ شیعہ اسلام کی ایک شاخ ہے، جو امام جعفر صادق ؒ کے بعد امامت کے مسئلے پر اختلاف کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ شیعہ اثنا عشریہ کے مطابق، امام جعفر صادق (رح) کے بعد ان کے بیٹے امام موسیٰ کاظم (رح) کو امامت ملی، لیکن کچھ افراد نے امام جعفر صادق کے بڑے بیٹے اسماعیلؒ کی نسل میں امامت کو مان لیا، جس سے اسماعیلی فرقہ کی بنیاد پڑی۔

اسماعیل کی امام جعفر صادق کی زندگی میں ہی وفات ہو گئی تھی، لیکن ان کے ماننے والوں نے کہا کہ امامت انہیں ہی ملنی چاہیے تھی اور ان کے بعد ان کی نسل میں جاری رہنی چاہیے۔ ان کو شروعات میں ”شش امامی“ اور ”واقفیہ“ بھی کہا جاتا رہا۔ اس طرح اسماعیلی فرقہ کی بنیاد رکھی گئی، اور اسماعیلی خود کو اہلِ بیت کے حقیقی پیروکار سمجھتے ہیں۔

فاطمی خلافت (909ء – 1171ء)

اسماعیلی تاریخ کا سب سے اہم دور فاطمی خلافت کا قیام ہے، جسے عبیدی خلافت بھی کہا جاتا ہے۔

فاطمی خلافت کا قیام :

اسماعیلی داعیوں نے نوویں صدی میں شمالی افریقہ میں ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کیا، اور سن 909ء میں عبید اللہ المہدی اللہ نے شمالی افریقہ کے علاقے موجودہ تیونس میں فاطمی خلافت کی بنیاد رکھی۔ وہ خود کو اہلِ بیت کی نسل سے بتاتے تھے۔

مصر میں فاطمی خلافت :

969ء میں فاطمی خلیفہ المعز الدین اللہ کے دور میں مصر فتح ہوا، اور فاطمی حکومت کا دارالحکومت تیونس سے قاہرہ منتقل کر دیا گیا۔ جامعۃ الازہر کی بنیاد بھی اسی خلافت میں رکھی گئی، جو آج بھی دنیا کی معروف اسلامی درسگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔

فاطمی خلفاء اور ان کے کارنامے :

المعز الدین اللہ (953-975ء): مصر کی فتح اور قاہرہ کا قیام

الحاکم بامر اللہ (996-1021ء): متنازع اصلاحات اور مذہبی عقائد میں تبدیلیاں

المستنصر باللہ (1036-1094ء): اسماعیلی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ۶ حکمرانی، جس کے بعد فرقہ بندی ہوئی۔

اسماعیلی فرقے کی تقسیم: نزاری اور مستعلوی :

1094ء میں فاطمی خلیفہ المستنصر باللہ کی وفات کے بعد اسماعیلی دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہو گئے:

1. نزاری اسماعیلی: وہ گروہ جو المستنصر کے بڑے بیٹے نزار کو امام مانتا تھا۔ اختلاف امامت کے بعد یہ گروہ ایران منتقل ہو گیا تھا۔

2. مستعلوی اسماعیلی: وہ گروہ جو المستنصر کے چھوٹے بیٹے مستعلی کو امام مانتا تھا۔ یہ گروہ مصر سے یمن چلا گیا تھا۔

مستعلوی اسماعیلی بعد میں “بوہری” کہلائے، جبکہ نزاری اسماعیلی “آغا خانی” کہلائے۔ یہ بوہری بھی کچھ عرصہ بعد تقسیم ہو گۓ اور ایک جماعت داٶدی بوہری اور دوسری سلیمانی بوہری کہلاٸی۔

نزاری اسماعیلی اور حسن بن صباح (حشاشین تحریک) :

نزاری اسماعیلیوں نے مصر سے نکل کر ایران اور شام میں اپنی تحریک جاری رکھی۔ حسن الصباح، جو ایک مشہور نزاری داعی تھا، نے قلعہ الموت (موجودہ ایران) کو نزاریوں کا مرکز بنایا اور ایک خفیہ جنگجو گروہ “حشاشین” کی بنیاد رکھی، جو سیاسی قتل و غارت گری کے لیے مشہور ہوا جنہوں نے سنی مکتبہ فکر کے علما و آٸمہ کے علاوہ سلجوکی ، ترک اور عرب حکومتوں کی نمایاں سیاسی شخصیات پر کامیاب قاتلانہ حملے کیے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس سے قبل ان سے امن کا معاہدہ کیا بھی کیا تھا۔

مصر میں فاطمی (اسماعیلی) خلافت کا خاتمہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کیا جبکہ 1256ء میں منگول حکمران ہلاکو خان نے قلعہ الموت پر حملہ کر کے نزاریوں کا اقتدار ختم کر دیا، اور نزاری اسماعیلی چھپ کر اپنی تحریک جاری رکھنے پر مجبور ہو گئے۔

آغا خانی سلسلہ اور جدید نزاری اسماعیلی :

نزاری اسماعیلی قیادت کئی صدیوں تک ایران میں رہی۔ 19ویں صدی میں ایران کے قاجاری حکمرانوں نے ان کے امام حسن علی شاہ کو “آغا خان” کا لقب دیا۔ بعد میں آغا خان اوّل نے ایران میں بغاوت کی اور شکست کھانے کے بعد سندھ اور پھر بمبئی منتقل ہو گئے، جہاں انہیں برطانوی حکومت کی حمایت حاصل ہوئی۔

جدید دور کے آغا خان :

آغا خان سوم (سر سلطان محمد شاہ، 1885-1957ء):

تحریک پاکستان کے حامی اور آل انڈیا مسلم لیگ کے ابتدائی رہنماؤں میں شامل۔

تعلیم، صحت، اور فلاحی کاموں میں سرگرم عمل۔

آغا خان چہارم (پرنس کریم آغا خان، 1957) :

اسماعیلی امامت کے موجودہ امام جو 4 فروری کو پرتگال میں انتقال کر گۓ۔ انھیں بیس برس کی عمر میں امامت کی وراثت ملی تھی۔ مغربی طرزِ زندگی اپنانے والے اور ترقیاتی منصوبوں میں فعال

مستعلوی اسماعیلی (بوہری فرقہ)

فاطمی خلافت کے خاتمے کے بعد مستعلوی اسماعیلیوں نے یمن اور ہندوستان میں اپنا مرکز بنایا۔ ان کے اندر بھی دو شاخیں بن گئیں:

1. داؤدی بوہرہ:

ان کا مرکز بھارت کے شہر سورت میں ہے۔

ان کے داعی موجودہ دور میں سیدنا مفضل سیف الدین ہیں جو سابق پیشوا برہان الدین کے فرزند ہیں۔ نماز، روزہ، اور دیگر اسلامی احکام کی سختی سے پیروی کرتے ہیں۔

2. سلیمانی بوہرہ:

ان کا مرکز یمن میں ہے، اور جنوبی ہندوستان میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کے داعی یمن میں قیام پذیر ہیں۔

اسماعیلی عقائد :

اسماعیلی عقائد میں دیگر اسلامی فرقوں سے چند بنیادی فرق پائے جاتے ہیں:

1. امامت کا تصور:

اسماعیلی ، اپنے حاضر امام کو اللہ کا نائب سمجھتے ہیں، جو روحانی اور دنیاوی قیادت کا حقدار ہوتا ہے۔

2. باطنی اور ظاہری شریعت: نزاری اسماعیلی بعض ظاہری شرعی احکام اور ارکان بارے باطنی تاویلات اور جواز دیتے ہیں۔

3. نماز کا منفرد طریقہ :

آغا خانی اسماعیلی روایتی اسلامی نماز کے بجائے اپنی عبادات میں امام کی تعلیمات کو اہمیت دیتے ہیں۔ روزہ ، زکاة اور حج کے ضمن میں بھی ان کے عقاٸد معروف اسلامی احکامات سے صریح متضاد ہیں۔

4. معاد جسمانی کا انکار :

بعض اسماعیلی گروہ قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اور اسے ایک روحانی حقیقت مانتے ہیں۔

اسماعیلی فرقہ کی تاریخ طویل اور متنوع ہے، جس میں سیاسی عروج و زوال، فرقہ بندی، اور عقائد میں تبدیلیاں شامل ہیں۔ آج، اسماعیلی تین بڑے گروہوں میں تقسیم ہیں:

1. نزاری اسماعیلی (آغا خانی)

2. مستعلوی اسماعیلی (بوہری)

3. دروزی (جو لبنان اور شام میں موجود ایک شاخ ہے)

بوہری فرقہ عمومی طور پر اسلامی روایات کی پیروی کرتا ہے تاہم یہ تینوں گروہ اپنے فرقے کی تبلیغ نہیں کرتے اور نہ کسی کو خود میں ضم ہونے دیتے ہیں۔ یہ تصور انھوں نے یہودیت سے مستعار لیا ھے کہ کوٸی بھی دوسرے مذہب کا پیروکار یہودیت قبول نہیں کر سکتا۔

دنیا بھر میں ان کی مجموعی تعداد مختاط اندازے کے مطابق بارہ ملین ھے۔

آغا خان فیملی :

”آغا خان“ دراصل ایران کی قاچاری حکومت کی طرف سے لقب تھا جو پرنس کریم، آغا خان چہارم کے پڑدادا کو عطا کیا گیا تھا۔ چوتھے آغا خانی امام پرنس کریم 04 فروری 2025 کو 88 سال کی عمر میں پرتگال کے شہر لزبن میں انتقال کرگئے۔ آپ نزاری اسماعیلی فرقے کے 49 ویں امام تھے جنہیں روایات سے ہٹ کر انکے دادا سر سلطان آغا خان کے بعد 20 سال کی عمر میں امامت منتقل ہوئی، جبکہ انکے والد (علی کریم) کو امامت کا عہدہ نہیں مل سکا تھا۔ پرنس کریم آغا خان نے اپنی پوری زندگی سوئٹزرلینڈ اور یورپ میں گزاری البتہ وہ پاکستان، وسطی ایشیا، افریقہ سمیت مختلف ممالک میں رفاہی منصوبوں کی سرپرستی اور بسا اوقات دورہ جات کرتے رہے۔ پاکستان میں شاہ کریم آغا خان کو فلاح و بہبود کے منصوبوں اور صحت و تعلیم کے شعبے میں پراجیکٹس کیوجہ سے خاص شہرت حاصل ہے، آغاخان ہیلتھ سروسز، آغاخان ہسپتال و یونیورسٹی، اور آغا خان ہایئر سیکنڈری سکولز ان میں سر فہرست ہیں۔ ڈویلپمنٹ سیکٹر، کلچر، رورل سپورٹ، ماحولیات، مائیکروفنانس وغیرہ میں بھی انکے اداروں کا نیٹ ورک فعال ہے۔ ڈیزاسٹرز کے دوران بھی آغا خان کے ادارے عوام کی بحالی میں پیش پیش رہے، اور سرکاری محکموں کے علاوہ عالمی این جی اوز کیساتھ بھی ان کے ادارے نے مشترکہ پراجیکٹس پر کام کئے اور کررہے ہیں۔ دوسری جانب یورپ و امریکا میں انکی تخصیص عام عوام میں بادشاہوں اور حکمرانوں کیساتھ ذاتی تعلقات کے علاوہ مہنگے ترین ریسنگ گھوڑے پالنے کی وجہ سے ہے یا ٹاپ ماڈلز کیساتھ شادیوں کیوجہ سے۔ جی ہاں انکی شادیوں کا چرچا عام اخبارات سے لیکر ٹاپ بزنس کلاس اور پریمیم میگزین کی زینت بنتے رہے جہاں سے عام افراد تک انکی شہرت پہنچتی رہی۔ شاہ کریم آغا خان سمیت انکے دادا و پڑ دادا انگریزوں کے انڈیا پر حکومت کے دوران “سر”، “آغا خان”، اور “پرنس” جیسے القابات سے مشرف ہوئے، جبکہ قیام پاکستان میں انکے دادا سر سلطان آغا خان سوئم نے قائد اعظم اور مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا۔ مگر حیرت انگیز طور پر ان کی فیملی نے آزادی کے بعد پاکستان میں قیام کو ضروری نہیں سمجھا اور فرانس، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی وغیرہ میں شاہانہ زندگی کو ترجیح دی۔ شاہ کریم آغا خان نے دو شادیاں کیں۔ انکی پہلی شادی انگریز فیشن ماڈل بیگم سلیمہ آغا خان (سارہ فرانسز کروکر پول) سے ہوئی۔ سارہ فرانسز آغا خان کیساتھ شادی سے پہلے لارڈ جیمز چارلس سے طلاق یافتہ تھی۔ بیگم سلیمہ سے طلاق کے بعد شاہ کریم آغا خان کی دوسری شادی جرمن خاتون انارا آغا خان (گیبرائل ہومی) سے ہوئی جو جرمنی کے شہزادے پرنس کارل امیچ سے طلاق یافتہ تھیں۔ دونوں شادیاں چند سالوں بعد طلاق پر منتج ہوگئیں۔ پہلی شادی سلیمہ آغا خان سے انکی ایک بیٹی زہرا آغا خان اور دو بیٹے رحیم آغا خان اور حسین آغا خان ہوئے، جبکہ دوسری بیگم انارا آغا خان سے ایک بیٹا علی محمد آغا خان ہوا۔ دوسری بیگم کے ساتھ پرنس کریم آغا خان کے طلاق کا مقدمہ دس سال تک چلا۔ ان کی بڑی اولاد زہرا آغا خان ، جس کی شادی یہودی النسل شوبز ماڈل مارک بوئیڈ کیساتھ 1997 میں ہوئی جوکہ 2005 میں طلاق پر ختم ہوگئی۔ مارک بوئیڈ کے سے زہرا آغا خان کے دو بچے ہیں۔

پرنس کریم آغا خان کے دو بڑے بیٹوں کی شادیاں بھی اپنے والد اور بڑی بہن کی طرح مشہور ماڈلز سے ہوئیں، جو چند برسوں میں ہی طلاق پر منتج ہوگئیں۔

موجودہ نامزد پچاسواں امام پرنس رحیم، آغا خان پنجم بھی اپنی سابق امریکی ماڈل بیگم سلوا آغا خان( کنڈرا ارنی سپئیرز) کو 2022 میں طلاق دے چکے ہیں جن سے ان کے دو بیٹے پرنس عرفان اور پرنس سنان ہیں۔

کریم آغا خان کے منجھلے بیٹے پرنس حسین آغا خان کی پہلی شادی فیشن ماڈل خالیہ (کرسٹین جے وہائٹ) کے ساتھ 2006 میں ہوئی، جس میں سے ایک بیٹا ہے۔ انکی طلاق 2011 میں ہوگئی۔ سن 2019 میں حسین آغا خان نے الزبتھ ہوگ (بعد ازاں فارینہ) نامی خاتون سے جنیوا میں دوسری شادی کرلی۔

کریم آغا خان کے سب سے چھوٹے بیٹے علی خان 2000 میں فرانس میں پیدا ہوئے جوکہ ہارورڈ یونیورسٹی گریجویٹ ہیں۔

بعض سادہ لوح لوگ آغا خانیوں کو پٹھان سمجھ رہے ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں۔ ہر ”خان“ پٹھان نہیں ہوتا۔ خان ، منگولیاٸی زبان کا لفظ ھے جس کا مطلب آقا یا سردار ھے۔

About Writer

Picture of News
News

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Tags:

GRIDXMATRIX.COM

For Sale!

For More Information Connect us on

Subscribe to our Newsletter

Trust us we don't spam